Dastak Jo Pahunchey Har Ghar Tak

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on email

*اردوغان کی شامی حکمتِ عملی: اسرائیل مخالف بیانیہ، اسرائیل موافق نتائج!* *(ترکی کی شامی پالیسی کا دو رُخا چہرہ: اخلاقی دعوے، قومی مفادات اور انسانی المیہ)*

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on email
ASANSOL DASTAK ONLINE DESK

ASANSOL DASTAK ONLINE DESK

Oplus_16777216

ازقلم: *ڈاکٹر محمّد عظیم الدین* (اکولہ،مہاراشٹر)
———————————————————————–
شام، وہ سرزمین جو کبھی تہذیبوں کے سنگم اور تاریخ کے اوراق میں علم و حکمت کا روشن باب تھی، آج ایک ایسی المناک داستان بن چکی ہے جس کی سیاہی وقت کے ساتھ گہری ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی گلیاں، جو کبھی تجارت اور ثقافت کے قافلوں سے گونجتی تھیں، اب ملبے کے خاموش ڈھیروں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ اس کے شہری، جو کبھی دنیا کو فنِ تعمیر، ادب اور فلسفے کا درس دیتے تھے، آج یا تو پناہ گزین کیمپوں کی خاک چھان رہے ہیں یا غیر ملکی سرزمینوں پر اپنی شناخت کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ یہ تباہی کسی فطری آفت کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک دہائی سے زائد عرصے پر محیط اس پیچیدہ اور بے رحم پراکسی جنگ کا شاخسانہ ہے، جس میں عالمی اور علاقائی طاقتوں نے اپنے تزویراتی مفادات کی تکمیل کے لیے شام کی سرزمین کو شطرنج کی بساط کے طور پر استعمال کیا۔ اس کھیل کے کئی کھلاڑی تھے، جن میں امریکہ، روس، ایران اور خلیجی ممالک شامل ہیں، لیکن ان سب میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کا کردار سب سے زیادہ متنازعہ، پیچیدہ اور تضادات سے بھرپور رہا ہے۔ انہوں نے خود کو جس انداز میں شام کے بحران کے مرکزی کردار کے طور پر پیش کیا، اور جس طرح ان کی پالیسیوں کے نتائج ان کے اعلانیہ مؤقف سے متصادم نظر آئے، وہ ایک گہرے تجزیے کا متقاضی ہے۔
جب 2011 میں عرب بہار کی لہر شام کے دروازوں پر دستک دے رہی تھی، صدر اردوغان اور شام کے صدر بشار الاسد کے درمیان تعلقات خوشگوار تھے۔ ترکی کی “پڑوسیوں کے ساتھ صفر مسائل” کی پالیسی کا عملی مظہر شام کے ساتھ گہرے معاشی اور سفارتی روابط کی صورت میں نظر آتا تھا۔ لیکن جیسے ہی شام میں پرامن مظاہرے شروع ہوئے اور اسد حکومت نے انہیں آہنی ہاتھوں سے کچلنے کا فیصلہ کیا، اردوغان نے ایک فیصلہ کن اور تاریخی موڑ لیا۔ انہوں نے بشار الاسد سے تمام تعلقات منقطع کرتے ہوئے انہیں ایک “ظالم آمر” قرار دیا اور شامی عوام کے جمہوری حقوق کے سب سے بڑے علمبردار کے طور پر سامنے آئے۔ انہوں نے عالمی سطح پر یہ بیانیہ تشکیل دیا کہ ترکی، شام کے مظلوم سنی عوام کا محافظ ہے اور ان کا مقصد صرف ایک جابر حکمران سے عوام کو نجات دلانا ہے۔ یہ مؤقف، جو اخلاقی اور انسانی بنیادوں پر استوار کیا گیا تھا، دنیا بھر میں، خصوصاً مسلم دنیا میں، بے حد مقبول ہوا اور اردوغان کو ایک ایسے رہنما کے طور پر دیکھا جانے لگا جو اصولوں کی خاطر اپنے سابقہ اتحادی کے خلاف کھڑا ہو گیا تھا۔ یہ ان کی پالیسی کا اعلانیہ پہلو تھا، ایک ایسا دعویٰ جس نے انہیں شام کے بحران میں ایک مرکزی اخلاقی قوت کی حیثیت عطا کی۔
تاہم، جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، اس اعلانیہ مؤقف اور ترکی کی عملی حکمتِ عملی کے درمیان خلیج وسیع ہوتی چلی گئی۔ دعوؤں کی روشن دنیا کے پیچھے حقائق کی ایک پیچیدہ اور تاریک تصویر ابھرنے لگی۔ انقرہ کا ہمیشہ یہ مؤقف رہا ہے کہ اس کی مداخلت کا بنیادی مقصد اپنی سرحدوں کو کرد علیحدگی پسندوں کے خطرے سے محفوظ رکھنا اور بشار الاسد کے انسانیت سوز مظالم کو روکنا تھا۔ اگرچہ ترکی کے قومی سلامتی کے خدشات اپنی جگہ جائز ہیں، لیکن ان کے حصول کے لیے جس حکمتِ عملی کا انتخاب کیا گیا، اس نے ان دعوؤں کی اخلاقی بنیاد کو کمزور کر دیا۔ اردوغان کی حکومت نے شامی اپوزیشن کی حمایت کے نام پر مختلف مسلح گروہوں کو پناہ، تربیت اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنا شروع کی۔ ابتدا میں یہ حمایت “فری سیرین آرمی” جیسے نسبتاً معتدل گروہوں تک محدود تھی، لیکن جلد ہی اس دائرے میں وہ انتہا پسند تنظیمیں بھی شامل ہو گئیں جن کے نظریات اور طریقہ کار عالمی سطح پر شدید تنقید کا نشانہ بنتے رہے۔ ان میں سب سے نمایاں نام “ہیئت تحریر الشام” (HTS) کا ہے، جس کی قیادت ابو محمد الجولانی کے ہاتھ میں ہے۔ یہ تنظیم، جو تکفیری  نظریات کی حامل ہے، عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ کی سابقہ شامی شاخ کی باقیات پر کھڑی ہے۔
یہاں اردوغان کی پالیسی کا سب سے بڑا تضاد سامنے آتا ہے۔ ایک طرف وہ عالمی اسٹیج پر فلسطین کے سب سے بڑے وکیل بن کر اسرائیل کو “دہشت گرد ریاست” قرار دیتے تھے اور مسلم امہ کی قیادت کا دعویٰ کرتے تھے، تو دوسری طرف وہ ایک ایسی شدت پسند تنظیم کی بالواسطہ سرپرستی کر رہے تھے جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث تھی۔ ہیومن رائٹس واچ اور اقوام متحدہ کی متعدد رپورٹس اس بات کی گواہ ہیں کہ HTS نے اپنے زیرِ کنٹرول علاقوں، بالخصوص صوبہ ادلب میں، مخالفین کے قتل، اغوا، جبری گمشدگیوں اور ایک جابرانہ نظام کے نفاذ کے ذریعے عوام پر مظالم ڈھائے۔ اس سے بھی بڑا تضاد یہ تھا کہ اس تنظیم نے، اپنی تمام تر عسکری طاقت کے باوجود، کبھی بھی اسرائیل یا اس کے مفادات کے خلاف ایک گولی تک نہیں چلائی۔ اس کے برعکس بشار الاسد کی حکومت، اپنی تمام تر آمریت اور بربریت کے باوجود، تاریخی طور پر حزب اللہ اور حماس جیسی اسرائیل مخالف تنظیموں اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی پشت پناہی کرتی رہی تھی، اور ان کے لئے بطور امدادی کوریڈور بنی رہی ۔ یوں اردوغان کی پالیسی نے عملی طور پر شام میں اس عظیم قوت کو کمزور کیا جو اسرائیل کے لیےمسلسل خطرہ بنی ہوئی تھی اور اس قوت کو مضبوط کیا جو اسرائیل کے لیے بے ضرر تھی یا جدید  تحقیق کے تناظر میں معاون و مددگار تھی ۔
شام کے بحران کا کلائمیکس دسمبر 2024 میں دمشق کے سقوط کی صورت میں رونما ہوا، جب ہیئت تحریر الشام اور ترکی کی حمایت یافتہ “شامی نیشنل آرمی” نے ایک تیز رفتار پیش قدمی کے بعد دارالحکومت پر قبضہ کر لیا اور بشار الاسد ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے۔ بظاہر یہ باغی گروہوں کی ایک شاندار فوجی فتح تھی، لیکن گہرائی میں دیکھا جائے تو یہ کئی علاقائی اور عالمی طاقتوں کے مفادات کے ٹکراؤ اور ملاپ کا نتیجہ تھا۔ اسے ایک منظم سازش قرار دینا شاید درست نہ ہو، لیکن یہ ایک ایسی “تزویراتی ہم آہنگی” (Strategic Convergence) کا نتیجہ ضرور تھا جہاں مختلف کھلاڑیوں کے اقدامات نے، چاہے وہ غیر مربوط ہی کیوں نہ ہوں، ایک مشترکہ نتیجہ پیدا کیا۔ ترکی نے ان گروہوں کو فیصلہ کن عسکری اور لاجسٹک مدد فراہم کی، جس کے بغیر یہ پیش قدمی ناممکن تھی۔ دوسری طرف، اسرائیل نے گزشتہ کئی برسوں سے شام کے اندر ایرانی اور شامی فوجی ٹھکانوں پر سینکڑوں فضائی حملے کرکے شامی فوج کی کمر توڑ دی تھی۔ ان حملوں نے اسد کی دفاعی صلاحیت کو اس حد تک کمزور کر دیا تھا کہ وہ ایک بڑی اور منظم یلغار کا مقابلہ نہ کر سکی۔ یوں اردوغان کے اقدامات نے غیر ارادی یا ارادی طور پر اسرائیل کے اسٹریٹجک مقصد کو پورا کیا جس کا ہدف شام کو عسکری طور پر غیر مستحکم رکھنا تھا۔ امریکی اور مغربی طاقتوں نے بھی اس تبدیلی پر خاموش رضامندی کا اظہار کیا اور نئی حکومت کے ساتھ کام کرنے کے اشارے دیے، جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ اسد کا خاتمہ ان کے وسیع تر علاقائی ایجنڈے سے مطابقت رکھتا تھا۔
اسد حکومت کے خاتمے کے بعد شام کا بحران ختم نہیں ہوا، بلکہ اس نے ایک نئی اور شاید زیادہ خطرناک شکل اختیار کر لی ہے۔ ملک آج عملی طور پر تین حصوں میں بٹا ہوا ہے: شمال مغرب میں ترکی کے زیر اثر علاقے، مشرق میں کردوں کے زیرِ انتظام خود مختار خطہ، اور جنوب میں ایک کمزور اور غیر مستحکم مرکزی حکومت جو مسلسل اسرائیلی دباؤ کی زد میں ہے۔ اردوغان، جو خود کو شامی عوام کا نجات دہندہ کہتے تھے، ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں شمالی شام عملاً ایک ترک کالونی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹس کے مطابق، ان علاقوں میں ترکی کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں، لوٹ مار، اور شہریوں کی جبری نقل مکانی معمول بن چکی ہے۔ ترکی پر شام کے قدرتی وسائل، خصوصاً تیل اور زرعی پیداوار، کے استحصال کے الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل اردوغان کے ان دعوؤں کی نفی کرتا ہے جن میں وہ خود کو مظلوموں کا حامی قرار دیتے ہیں۔
اس پوری تصویر میں ایک اور اہم پہلو ترکی کا “کرد مسئلہ” ہے۔ اردوغان کی شامی پالیسی کا ایک بنیادی محرک شام کے شمال میں کردوں کی خود مختار ریاست (روجاوا) کے قیام کو روکنا تھا، جسے وہ ترکی میں موجود کرد علیحدگی پسند تنظیم کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کا نظریاتی اور عسکری بازو سمجھتے ہیں۔ ترکی نے “آپریشن اولیو برانچ” اور “آپریشن پیس اسپرنگ” جیسی بڑی فوجی کارروائیوں کے ذریعے کردوں کے اثر و رسوخ کو محدود کیا، لاکھوں لوگوں کو بے گھر کیا اور خطے کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اردوغان کی پالیسی صرف اسد کو ہٹانے یا جمہوریت کے قیام تک محدود نہیں تھی، بلکہ اس کے پسِ پردہ ترکی کے اپنے قومی سلامتی کے مفادات اور علاقائی تسلط کی خواہش (جسے بعض مبصرین “نو-عثمانیت” کا نام دیتے ہیں) کارفرما تھی۔
آج جب ہم شام کی تباہی کا جائزہ لیتے ہیں، تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اردوغان کی پالیسیاں تضادات کا ایک شاہکار ہیں۔ انہوں نے ایک آمر کو ہٹانے میں کلیدی کردار ادا کیا، لیکن اس کی قیمت شام کی قومی وحدت، خودمختاری اور استحکام کی صورت میں ادا کی گئی۔ انہوں نے فلسطین کی حمایت کے نعرے بلند کیے، لیکن شام میں اسرائیل کے سب سے بڑے نظریاتی مخالفین کو کمزور کرنے کا سبب بنے۔ انہوں نے خود کو انسانی حقوق کا چیمپئن قرار دیا، لیکن ان کی سرپرستی میں چلنے والے گروہ خود انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث رہے۔ ان کی پالیسیوں نے لاکھوں شامیوں کو پناہ گزین بنایا اور ملک کو ایک ایسی دلدل میں دھکیل دیا جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ شام میں اسرائیل کے لیے سازگار ماحول پیدا ہونا انقرہ کی پالیسی کا دانستہ ہدف تھا یا محض ایک غیر ارادی نتیجہ، تاہم ایک تجربہ کار قیادت سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں کے دور رس اور ممکنہ نتائج کا ادراک رکھے۔
تاریخ جب بھی اس دور کا فیصلہ لکھے گی تو رجب طیب اردوغان کا نام ایک ایسے رہنما کے طور پر درج کرے گی جس کے عزائم بلند تھے، جس کا بیانیہ پُرکشش تھا، لیکن جس کی حکمتِ عملی کے نتائج تباہ کن ثابت ہوئے۔ انہوں نے عالمِ اسلام کی قیادت کا خواب دیکھا، لیکن ان کے اقدامات نے ایک برادر مسلم ملک کو مزید تقسیم اور کمزور کر دیا، جس کا بالواسطہ فائدہ ان قوتوں کو پہنچا جن کی وہ کھلے عام مذمت کرتے تھے۔ شام کی عوام، جو اس عظیم کھیل کے بے بس مہرے تھے، آج بھی اپنے مستقبل کی تلاش میں ہیں، ایک ایسے مستقبل کی تلاش میں جو علاقائی طاقتوں کی امنگوں کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ اردوغان کی شامی پالیسی دعوؤں اور حقائق کے درمیان ایک گہری خلیج کی وہ داستان ہے، جو آنے والی نسلوں کے لیے ایک سبق کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔ شام کی یہ المناک داستان یہ بنیادی سوال بھی چھوڑ جاتی ہے کہ کیا مستقبل میں بھی قومی مفادات کے حصول کے لیے اخلاقی بیانیوں کو اسی طرح ایک آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہے گا، اور اس کی قیمت کون ادا کرے گا؟
=================
موبائل : 8275232355