Dastak Jo Pahunchey Har Ghar Tak

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on email

*شعبۂ اُردو ،قاضی نذرل* *یونیورسیٹی میں یومِ پیدائش منشی پریم چند کے موقع پر خصوص لیکچر وطلبہ سیمینار کا انعقاد ۔*

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on email
ASANSOL DASTAK ONLINE DESK

ASANSOL DASTAK ONLINE DESK

شعبۂ اُردو قاضی نذرل یونیورسیٹی میں آ ج 31 جولائی 2025 بروز جمعرات یومِ پیدائش منشی پریم چند کے موقع پر 145واں جشنِ یومِ منشی پریم چند کی تقریب کا انعقاد کیا گیا ۔اس پر مسرت موقع پر ایک خصوصی لکچر و طلبہ سیمنار بعنوان “منشی پریم چند کی ادبی معنویت” کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب کا آغاز ڈاکٹر محمد فاروق اعظم ،کوآرڈینیٹر ،شعبہ اُردُو قاضی نذ ر ل یونیورسٹی کے خیر مقدمی کلمات سے ہُوا ،موصوف نے تمام مہمانان کااستقبال کرتے ہوئے شعبہ اردو کی سر گرمیوں اور منشی پریم چند کی ادبی اہمیت پر روشنی ڈالی ،بعد از تقریب میں موجود تمام مہمانان کی گل پوشی کی گئی پروفیسر شجل کمار بھٹاچاریہ( ڈین فیکلٹی آف آرٹس) نے افتتاحی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کے شعبۂ اردو کے تمام اساتذہ کی محنت و مشقت پر آج مجھے بہت فخر محسوس ہو رہا۔اس یونیورسٹی میں شعبہ اردو کی کارکردگی کی یہ مثبت دلیل ہے کے آج ایم ۔اے کے طالباءو طالبات منشی پریم چند پر مقالہ پیش کریں گے۔ اس کے علاوہ انہوں نے پریم چند کی ادبی زندگی پر،پرمغز گفتگو کرتے ہوئے شعبہ اردو کےکوآرڈینیٹر ڈاکٹر فاروق اعظم اور شعبہ کے تمام اساتذہ کو فعال اور متحرک قرار دیتے ہوئے ان کو دلی مبارکباد پیش کی ۔ یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر چندن کونار نے اپنی تقریر میں منشی پریم چند کی شخصیت اور ان کی سماجی و تعلیمی اصلاحات اور دیگر کارناموں کا ذکر کیا۔ پریم چند کا موازنہ دیگر ادباء سے کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح دیگر ادباء نے ہندوستانی سماج میں رائج فرسودہ رسم و رواج اور انسانوں کے ساتھ ہونے والے استحصال کے خلا ف آواز بلند کی ہے اسی طرح پریم چند نے بھی اپنی قوم میں رائج فرسودہ رسم و رواج اور ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کی ۔ شعبہ اردو کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اُنہوں نے مزید کہا کہ شعبۂ اُردو اس یونیورسٹی میں اپنی ایک شناخت رکھتا ہے اس شعبۂ کے تمام اساتذہ کرام اور طلباء و طالبات بہت مہذب اور فعال ہیں ہمہ وقت سر گرم رہتے ہیں۔بعداز اس تقریب میں موجود مہمان خصوصی،معروف افسانہ نگار ڈاکٹر عشرت بیتاب صاحب نے پریم چند کی ادبی معنویت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پریم چند نے اپنی کہانیوں میں غربت ،طبقاتی تفاوت،استحصال،جاگیر دارنہ نظام اور سماجی ناانصافیوں کو موضوع بنایا ہے ،ان کے ناول گودان،غبن اور ان کا افسانہ کفن آج بھی معاشرتی ناہمواریوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ عصر حاضر میں جہاں معاشی تفاوت،ذات پات اور صنفی عدم مساوات،آج بھی بڑے مسائل ہیں ،پریم چند کی تحریریں ان موضوعات پر گہری روشنی ڈالتی ہیں ۔ان کی کہانیاں نہ صرف ادب کی دنیا میں ایک اہم ورثہ ہیں بلکہ آج کے دور میں بھی سماجی تبدیلی اور خود آگہی کے لیے ایک رہنما کی طور پر کام کرتی ہیں۔اس خصوصی لیکچر کے آخر میں سوال و جواب کا سیشن رہا جس نے اس خصوصی لیکچر کی تاثیر میں مزید اضافہ کیا۔اس سیشن کا اختتام شعبہ کی استاذ ڈاکٹر صوفیہ محمود کے ہدیہ تشکر سے ہوا ۔
اس پر مسرت موقع کے دوسرے سیشن میں طلبہ سیمنار بعنوان “منشی پریم چند کی ادبی معنویت” کا اہتمام کیا گیا۔ جس کی نقابت کے فرائض ڈاکٹر صوفیہ محمود نے بخوبی نبھایا۔ شعبۂ اُردو، ایم۔ اے سال دوم کے طلباء و طالبات بالترتیب نکہت پروین نے بعنوان “پریم چند کی کہانیوں میں کسان،مزدور اور غریب طبقہ”، صبا خاتون نے بعنوان ” پریم چند کے افسانوں میں عورتوں کا کردار اور اس کا مقام”، ہما ناز نے بعنوان ” پریم چند کی افسانہ نگاری حقیقت نگاری کا نیا باب”، شاہین پروین نے بعنوان”منشی پریم چند اور ترقی پسند تحریک کی فکری زمین” ، صوفیہ نے بعنوان” پریم چند کے افسانوں میی

عورت” مہہ جبین تبسم نے ” پریم چند کے ناولوں میں ہندوستانی سماج کی عکاسی” اور گلفشاں خاتون نے ” پریم چند کی نثر میں قومی یکجہتی اور قومی ہم آہنگی” کے عنوان پر مقالے پیش کیے،صدر مجلس ڈاکٹر عشرت بیتاب صاحب نے تمام مقالہ نگاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کی محنت کو سراہا بالآخر اس تقریب میں شامل شعبۂ اردو کے اساتذہ ڈاکٹر محمد فاروق اعظم ،ڈاکٹر صوفیہ محمود ،ڈاکٹر رضا مظہر انصاری، ڈاکٹر نکہت پروین اور ڈاکٹر آثار عالم انصاری نے اس تقریب کے تعلق سے اپنے پر مغز خیالات کا اظہار کیا۔ شعبہ اردو کے تمام طلباء و طالبات نے بھی اپنی محنتوں اور محبتوں سے اس تقریب کو کامیاب بنایا۔