سالان پور تھانہ علاقے میں ایک پندرہ سالہ طالبہ کی پراسرار گمشدگی نے نہ صرف ایک خاندان بلکہ پورے علاقے کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، گزشتہ ہفتہ کی صبح مذکورہ لڑکی حسبِ معمول ٹیوٹر کے پاس پڑھنے کے لیے گھر سے نکلی، مگر پھر واپس نہیں لوٹی۔
اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی کو اغوا کر لیا گیا ہے۔ اور اس الزام کو اس وقت مزید تقویت ملی جب لڑکی کے والد کے موبائل پر اس کی واٹس ایپ آئی ڈی سے پیغام موصول ہوا، جس میں تین لاکھ روپے تاوان طلب کیا گیا۔ والدین نے بتایا کہ وہ کچھ رقم اغوا کاروں کو دے چکے ہیں، مگر اس کے باوجود لڑکی کا کچھ پتا نہ چل سکا۔
لڑکی کے والد نے رندھی ہوئی آواز میں کہا:
“میری بیٹی میری زندگی ہے۔ ہم صرف اسے واپس چاہتے ہیں، کچھ اور نہیں۔ وہ ہفتہ کی صبح گھر سے نکلی، لیکن اب تک لوٹی نہیں۔ ہم مایوس اور بے بس ہو چکے ہیں۔”
اس واقعے نے علاقے کے رہائشیوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ لوگوں میں خوف و بے یقینی کی فضا قائم ہے۔ والدین اب اپنی بچیوں کو اسکول یا ٹیوشن بھیجنے سے کترا رہے ہیں۔ ایک مقامی شخص کا کہنا تھا، “اگر پڑھائی کے لیے جانے والی بیٹی گھر واپس نہ لوٹے تو ہم کیا کریں؟ کیا ہماری بیٹیاں اب بھی محفوظ ہیں؟”
پولیس نے سالانپور تھانے میں اغوا کا مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔ سائبر سیل کی مدد سے واٹس ایپ پیغام کی لوکیشن کا پتا لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج کی جانچ بھی جاری ہے اور متعدد مقامات پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ لیکن اغوا کاروں کی ٹیکنالوجی سے واقفیت اور ان کا منظم نیٹ ورک پولیس کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔
ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا:
“اب ایسے مجرم سادہ نہیں رہے، وہ ٹیکنالوجی کے ماہر ہو چکے ہیں، لیکن ہم ہار نہیں مانیں گے۔ ہر زاویے سے تفتیش کی جا رہی ہے۔”
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب آسن سول اور اس کے مضافات میں اغوا کا واقعہ پیش آیا ہو۔ 2002 میں مقامی تاجر شیو کمار اگروال کے اغوا کا واقعہ آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ایسے ہر واقعے کے بعد انتظامیہ کی سستی اور بے عملی پر سوال اٹھتا ہے۔
لڑکی کے اہل خانہ نے ریاستی وزیر اعلیٰ محترمہ ممتا بینرجی سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کی ہے:
“ہم صرف اپنی بیٹی کو واپس چاہتے ہیں، ہماری زندگی اجڑ گئی ہے، خدا کے لیے ہماری بیٹی کو بازیاب کروائیے۔”
یہ واقعہ صرف ایک خاندان کا درد نہیں بلکہ پورے سماج کے ضمیر کو جھنجھوڑنے والا سوال ہے—کیا ہماری بچیاں واقعی محفوظ ہیں؟ کیا قانون اور انصاف ان کے تحفظ کے لیے کافی ہیں؟ یا یہ معاملہ بھی دیگر خبروں کی طرح کچھ دن بعد اخبارات کے صفحات سے اوجھل ہو جائے گا؟
فی الحال، لڑکی کا خاندان اور علاقہ امید و خوف کے بیچ ٹکا ہوا ہے… منتظر ہے اُس لمحے کا جب ان کی بیٹی صحیح سلامت گھر لوٹے گی۔