Dastak Jo Pahunchey Har Ghar Tak

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on email

*تسلیم نیازی کے نام سے منسوب ہوگا سڑک کانام* *شاذیہ نیازی کی مرتب کردہ کتاب “تجھے کیا پتا ” کے اجراء پر میئر نے کیا اعلان*

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on email
ASANSOL DASTAK ONLINE DESK

ASANSOL DASTAK ONLINE DESK

Oplus_16777216

امتیاز احمد انصاری کی خصوصی رپورٹ:

آسنسول کا پہلا صاحب دیوان استاد شاعرمرحوم تسلیم نیازی کے شعری اثاثہ کو ان کی لائق دختر اور نسائی ادب کی نمائندہ شاعرہ شاذیہ نیازی نے یکجا کرکے “تجھے کیا پتا ” کے نام سے شائع کیا۔اس کتاب کے اجراء کی تقریب آسنسول کارپوریشن کر سجے سجائے الوچنا ہال میں اتوار کے دن آسنسول اردو اکاڈمی (آسنسول کارپوریشن )کے زیر اہتمام منعقد کی گئی۔ کتاب کااجراء آسنسول کارپوریشن کے مئیر اور آسنسول اردو اکاڈمی کے چیئرپرسن بدھان اپادھیا،آسنسول کارپوریشن کے ڈپٹی مئیر اور آسنسول اردواکاڈمی کے سکریٹری سید وسیم الحق اور وائس چیئرمین ڈاکٹر مشکور معینی کے ہاتھوں ہوا۔ تقریب رونمائی کی صدارت برصغیر کے معمر افسانہ نگار اور ادیب ساز الحاج نذیر احمد یوسفی نے کی اور نظامت کی ذمہ داریاں امتیاز احمد انصاری اپنے مخصوص لب ولہجہ میں انجام دئیے۔موقعے پر شہر نشاط کولکاتہ سے شاعر،ادیب،صحافی اور معلم ڈاکٹر عاصم شہنواز شبلی ،اردو تحریک سے جڑی شخصیت شاعر ونثر نگار مبارک علی مبارکی،شاعر وافسانہ نگار اور ڈبلیو بی سی ایس آفیسر سید انجم رومان، رسالہ عالمی فلک کے مدیر،شاعر وصحافی احمد نثار،شاعرہ، ادیبہ ومعلمہ ڈاکٹر صابرہ خاتون حنا،کالم نویس ونثر نگار الحاج انجنئیر خورشید غنی، مغربی بنگال اردوکاڈمی کے رکن وصحافی شکیل انورکے علاؤہ مرحوم تسلیم نیازی کی اہلیہ سمیت اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والوں بڑی تعدادنہ صرف موجود رہی بلکہ اس یادگار اور تاریخی پروگرام کا گواہ بنی۔ مئیر کارپوریشن بدھان اپادھیا نے کتاب کےاجراء کے بعد اپنی مختصر تقریر کے دوران جہاں ایک طرف صاحب دیوان شاعر تسلیم نیازی کی عظمتوں کو سلام کرتے ہوئے ان کی دختر شاذیہ نیازی کو مبارکباد پیش کیااور ہرطرح کی تعاؤن کا وعدہ بھی کیا۔ناظم جلسہ امتیاز احمد انصاری نے تسلیم نیازی جیسےاردوکے عظیم شاعر کے نام کو زندہ جاوید کرنے اور خراج تحسین پیش کرنے کے مقصد سے آسنسول کے کسی سڑک یا شاہراہ کانام تسلیم نیازی کے نام سے منسوب کرنے کی مئیر کارپوریشن کے سامنے تجویز رکھی تو مئیر نے فوراً حامی بھرتے ہوئے اس کی تائید کی اور اس سلسلے میں قدم اٹھانے کا وعدہ کیا جس کا استقبال سامعین نے بھرپور تالیاں بجا کر کیا۔افتتاحی گفتگو میں سید وسیم الحق نے ایک بار پھر سے اس بات کا اعادہ کیا کہ آسنسول اردو اکاڈمی اردو طلبہ کی تعلیمی ترقی کے لئے قدم اٹھانے کے ساتھ اردو شعراء و ادباء کی کتابوں کے اجراء کا اہتمام بھی کرتی رہے گی۔موصوف نے استاد شاعر وقیع منظر کو یہ ذمہ داری بھی دی کہ وہ آسنسول اردواکاڈمی کےلئے کوئی خوبصورت ساترانہ لکھیں تاکہ مستقبل میں اکاڈمی کے پروگراموں کا آغاز اسی ترانہ سے کیا جاسکے۔موقعے پر تمام مقررین نے تسلیم نیازی کی فن اور شخصیت پر بھرپور روشنی ڈالتے ہوئے ان کے اشعار کے حوالے سے ان کی شاعرانہ عظمت بیان کئے اور شاذیہ نیاذی جیسی اولاد کو دلی مبارکباد پیش کیا جنہوں نے اپنے والد مرحوم کےبکھرے شعری اثاثہ کو یکجا کرکے انہیں کتابی شکل دی۔شاذیہ نیاذی نےتمام مہمانوں اور سامعین کےساتھ آسنسول اردواکاڈمی کے سکریٹری سید وسیم الحق اور ان کے رفیق خورشید ادیب کےبھرپور تعاؤن اور مغربی بنگال اردوکاڈمی کا بھی شکریہ ادا کیا جس نے اس کتاب کی اشاعت میں مالی معاونت کی۔پروگرام کاآغاز ابوفیضان نے تسلیم نیازی کے نعت پاک سے کیا اور یاسین ثاقب نے ان کی خوبصورت غزل کو اپنی پیاری آوازدی جبکہ محمد حفیظ نے بھی غزل پیش کیا۔صدارتی خطبہ نذیر احمد یوسفی اور اظہار تشکر وقیع منظر نے کیا۔تمام مہمانوں کو بیچ،گلدستہ،شانہ زیب اور مومنٹو وفریم خورشید ادیب،ابوقرنین،ڈاکٹر محمد انوارالحق،ڈاکٹر انیس الرحمٰن ،ماسٹر محمد سلیمان ، مختار عالم،محمد قربان،ندیم شعبانی،قمر جاوید،شاذیہ نیازی اور غزالہ تبسم کےذریعہ پیش کیاگیا۔کتاب کے اجراء کے بعدڈاکٹر عاصم شہنواز شبلی نے شال،سلیم سرفراز نے شاذیہ نیازی کو سپاس نامہ، خورشید ادیب نے شال اور فروغ ادب گریڈیہہ کے روح رواں مختار حسینی نے شاذیہ نیازی کے ساتھ ناظم جلسہ امتیاز احمد انصاری کو ان کے یوم ولادت پرانہیں بھی گلدستہ پیش کیا۔