گزشتہ ایک سال سے آسنسول میونسپل کارپوریشن کی جانب سے جَمُوڑیا اور رانی گنج کے صنعتی علاقوں میں قائم کئی نجی کارخانوں پر غیر قانونی تعمیرات کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ اس ضمن میں میونسپل کارپوریشن نے مجموعی طور پر 500 کروڑ روپے سے زائد کا جرمانہ عائد کیا، تاہم نہ تو یہ جرمانے ادا کیے گئے اور نہ ہی غیر قانونی تعمیرات کو منہدم کیا گیا۔
حالیہ دنوں، ایک نجی اسٹیل فیکٹری کے خلاف بلڈوزر سے انہدامی کارروائی شروع کی گئی، جس کے بعد فیکٹری مالک نے کولکاتا ہائی کورٹ میں مقدمہ درج کرایا۔ معاملے کی سماعت کے دوران جسٹس گورانگ کانت نے میونسپل کارپوریشن کے خلاف سخت تبصرہ کرتے ہوئے ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے سوال اٹھایا کہ کیا صرف جرمانہ ادا کر دینے سے غیر قانونی تعمیرات کو قانونی حیثیت حاصل ہو جائے گی؟
میونسپل کارپوریشن کے قانونی مشیر نے عدالت میں وضاحت دی کہ متعلقہ کارخانوں میں ہزاروں مزدور کام کرتے ہیں، جن کی روزی روٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے کارخانہ مالکان کو وقت دیا گیا تھا۔
دوسری جانب، میئر بدھان اُپادھیائے نے کہا کہ چونکہ ابھی تک انہیں عدالت کا حکم نامہ موصول نہیں ہوا ہے، اس لیے وہ اس پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔ تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ کارخانہ انتظامیہ کو وقت ضرور دیا گیا تھا، لیکن انہوں نے جرمانہ ادا نہیں کیا۔ میئر نے فیکٹری انتظامیہ پر دوہرا رویہ اپنانے کا الزام بھی عائد کیا۔
اس معاملے میں بی جے پی رہنما جتیندر تیواری نے میونسپل کارپوریشن اور فیکٹری انتظامیہ کے درمیان ملی بھگت کا الزام لگایا۔ جبکہ دوسری جانب فیکٹری کے ایک اعلیٰ افسر آشوتوش چودھری نے اس پورے واقعے کو ایک “غلط فہمی” قرار دیتے ہوئے، مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے۔
فی الحال معاملہ عدالت میں ہے اور شہر کی صنعتی فضا میں پیدا ہونے والی اس کشیدگی پر سب کی نگاہیں مرکوز ہیں۔