ہر وہ چراغ جو اخلاص کی لو سے روشن ہو، وہ زمانے کی گرد سے بے نیاز، اپنی روشنی بکھیرتا رہتا ہے۔ ایسا ہی ایک چراغ “ادارہ فیض القرآن، ٹھکری باڑی” کی شکل میں 1998 میں روشن ہوا۔ اس ادارے نے ابتدا میں شعبۂ حفظ کے ذریعے قرآنی علوم کی خدمت کا آغاز کیا۔ 2008 میں عربی درجات کی تدریس کا مرحلہ شروع ہوا، اور 2012 میں اس ادارے نے دورۂ حدیث کے بابرکت سفر کا آغاز کیا۔
اور آج، بروز جمعہ، 18 اپریل 2025 کو ادارے کی تاریخ میں ایک اور روشن باب کا اضافہ ہوا—شعبۂ افتاء کا آغاز کیا گیا، جس کی سرپرستی نواسۂ شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی سلمان منصورپوری دامت برکاتہم العالیہ نے قبول فرمائی۔ یہ صرف ایک ادارہ ہی نہیں، بلکہ علم، اخلاص، اور خدمتِ دین کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔
چند روز قبل، میرے واٹس ایپ پر حضرت مولانا تنویر صاحب قاسمی کا محبت بھرا دعوت نامہ موصول ہوا، جس میں اس تقریب کا ذکر تھا۔ بعد ازاں حضرت مہتمم، مولانا ممتاز صاحب مظاہری حفظہ اللہ کا پُرخلوص فون آیا۔ انہوں نے بڑے خلوص سے دعوت دی کہ “ہمارے یہاں افتاء کی تعلیم کا آغاز ہو رہا ہے، جس کے لیے ایک افتتاحی تقریب رکھی گئی ہے۔ مہمانِ خصوصی حضرت مفتی سلمان منصورپوری صاحب ہوں گے، آپ تشریف لائیں۔”
میں اس وقت 20 اپریل کو ہونے والے ایک اہم احتجاجی اجلاس کی تیاریوں میں مصروف تھا، مگر مہتمم صاحب کے خلوص اور ادارے کی علمی خدمات کے جذبے نے مجھے مجبور کیا کہ میں اس دعوت کو شرفِ قبولیت بخشوں، اور الحمدللہ! آج کی اس پُرنور مجلس میں شریک ہونے کی توفیق ملی۔
لہذا آج مولانا عبدالواحد بخاری صاحب (مدرس مدرسہ فاطمۃ الزہراء للبنات، چھترگاچھ) اور مولانا عبدالمنتقم فرقانی صاحب (ناظم، تنظیم و ترقی مدرسہ ہذا) کے ہمراہ ادارہ فیض القرآن، ٹھکری باڑی کی اس پر رونق تقریب میں حاضری کا موقع ملا۔ علمی شخصیات سے ملاقات، مفید مجلس میں شرکت اور بہت سی گراں قدر باتیں سننے کا موقع میسر آیا۔ یہ سب کچھ دینی ذوق و شوق کو تازہ کرنے والا، روح کو سرشار کرنے والا اور قلب کو خوشی سے لبریز کرنے والا تجربہ تھا۔
میں اس موقع پر شعبۂ افتاء کے بہترین آغاز پر حضرت مولانا ممتاز صاحب مظاہری دامت برکاتہم، ادارہ کے تمام منتظمین، معاونین، اساتذہ کرام اور طلبہ کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس ادارے کو علم و عمل، فقہ و فتاویٰ، اور رشد و ہدایت کا مضبوط مینار بنائے، اور اس کی خدمات کو امتِ مسلمہ کے لیے باعثِ فیض و برکت بنائے۔ آمین۔
فقہ کی تعریف
فقہ شریعت اسلامی کا وہ علم ہے جس میں قرآن و سنت، اجماع و قیاس کی روشنی میں احکامِ شرعیہ (نماز، روزہ، نکاح، طلاق، تجارت، عبادات، معاملات وغیرہ) کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُواْ فِي الدِّينِ۔ (التوبہ: 122)
ترجمہ: “پس کیوں نہ ہر جماعت میں سے ایک گروہ نکلتا تاکہ وہ دین میں تفقہ (گہری سمجھ) حاصل کرے۔”
اس آیت سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تفقہ فی الدین (دین میں گہری بصیرت) حاصل کرنے کو فرض کفایہ قرار دیا ہے، تاکہ وہ لوگ دین کے مسائل کو سمجھ کر دوسروں کی راہنمائی کریں۔
ظاہر ہے کہ تمام لوگ مجتہد یا مفتی نہیں بن سکتے، بلکہ کچھ اہل علم کو یہ ذمہ داری نبھانی ہے تاکہ وہ لوگوں کو دین کے احکام بتائیں۔


یہی وجہ ہے کہ علم شریعت میں فقہ و فتاویٰ کی مستقل اہمیت ہے:
حدیث پاک ہے: قال رسول الله ﷺ: «من يُرد اللهُ به خيرًا يُفَقِّهْهُ في الدِّينِ۔ (صحیح بخاری)
ترجمہ: “جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے، اُسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔”
شارحین نے دین میں گہری سمجھ سے علم فقہ کو مراد لیا ہے، فقہ میں درک حاصل کرنا اللہ کی نعمت اور بھلائی کی علامت ہے۔
حدیث معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ: جب نبی کریم ﷺ نے حضرت معاذ کو یمن بھیجا، تو فرمایا:
“بِمَ تَقْضِی؟” تم کس دلیل سے فیصلہ کروگے؟
حضرت معاذ نے جواب دیا: “أَقْضِی بِكِتَابِ اللهِ، فَإِن لَم أَجِد فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللهِ، فَإِن لَم أَجِد فَأَجْتَهِدُ رَأْيِي…” (سنن ابی داود) یعنی “میں قرآن سے فیصلہ کروں گا، اگر اس میں نہ پایا تو سنت سے، اگر وہاں بھی نہ ملا تو اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔”
اس سے فقہ، اجتہاد اور فتاویٰ کی بنیاد کا واضح ثبوت ملتا ہے، جو نبی کریم ﷺ کی تائید یافتہ ہے۔
فتویٰ دراصل فقہ کی عملی صورت ہے، جو عوام الناس کی رہنمائی کے لیے دیا جاتا ہے۔
جب کوئی نیا مسئلہ سامنے آتا ہے، تو مجتہدین یا مفتیان کرام قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا حل تلاش کرتے ہیں۔
قرآن و سنت کے اجمالی احکام کی تفصیل، تطبیق اور ان کی عملی صورت فقہ و فتاویٰ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
فقہ و فتاویٰ دین کی وہ بنیادیں ہیں جن کے ذریعے قرآن و حدیث کے احکام کو عوام الناس کی زندگیوں میں نافذ کیا جاتا ہے۔ قرآن نے تفقہ فی الدین کو ضروری قرار دیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اس کو خیر کا معیار بتایا ہے۔ اس لیے فقہ و فتاویٰ کو معمولی یا صرف رائے پر مبنی سمجھنا نادانی ہے؛ بلکہ فقہ تو دین کی اصل فہم اور اس کا عملی چہرہ ہے۔
از: *آفتاب اظہر صدیقی* (کشن گنج)
جنرل سکریٹری مجلس احرار اسلام صوبہ بہار


















