*سرفرازاحمدقاسمی* ،
حیدرآباد
رابطہ: 8099695186
اسوقت ہندوستان دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن چکا ہے،11 جولائی کو دنیا بھر میں عالمی یوم آبادی کے طور پر منایا جاتا ہے،اسی موقع پر ہندوستان کی آبادی سے متعلق اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں اہم اعداد و شمار کا انکشاف ہوا ہے،رپورٹ کے مطابق ہندوستان سال 2025 تک اندازا 1.46 ارب آبادی کے ساتھ دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بنا رہے گا،تاہم ملک کی کل زرخیزی کی شرح 2.1 سے کم ہوکر 1.9 ہوگئی ہے،اقوام متحدہ کی پاپولیشن فنڈ نے اپنی تازہ رپورٹ میں یہ معلومات دی ہیں،2025 کی عالمی آبادی پر رپورٹ کے مطابق اصل مسئلہ آبادی کے حجم میں نہیں ہے بلکہ اس بات سے جڑی وسیع چیلنجز میں ہے کہ لوگ آزادی اور اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ خود یہ فیصلہ کر سکیں کہ وہ بچے چاہیں یا نہیں چاہیں کب چاہیں اور کتنے بچے چاہیں۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی موجودہ آبادی 1.463.9 ملین ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان اب دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے جس کی آبادی تقریبا 1.7 ارب تک پہونچنے کی توقع ہے،اس سے پہلے کہ آبادی میں کمی کا رجحان شروع ہو،ہندوستان میں آبادی کے حوالے سے یہ سامنے آیا کہ ہندوستان میں موجودہ مجموعی شرح تولید فی خاتون 2.0 بچے ہے۔اس کا مطلب ہے کہ اوسطا ہندوستان میں ایک عورت سے اس کی زرخیز عمر عموما 15 سے 49 سال کے دوران دو بچوں کی امید کی جاتی ہے،سیمپل رجسٹریشن سسٹم کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق یہ شرح 2020 سے مستحکم ہے۔یہ رپورٹ بتلاتی ہے کہ ہندوستان سچ مچ دنیا کا سب سے بڑا ملک اور سب سے بڑی جمہوریت ہے لیکن اس سب سے بڑےجمہوری ملک میں کیا کچھ ہورہاہے کیا یہاں بنیادی حقوق کا تحفظ ہورہا ہے؟ کیا یہاں لوگوں کو آزادی ہے؟دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے جمہوری ملک ہندوستان میں انسانی حقوق کی کیسے سنگین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں اور اس کےلئے ہندوستان کو باعث تشویش ملک قرار دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے،اقوام متحدہ کی یو ایس سی آئی آر ایف اور فریڈم ہاؤس نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت کو باعث تشویش ملک قرار دیا جائے،وہاں اقلیتوں کو خطرات لاحق ہیں۔
اقوام متحدہ کے ماہرین امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (USCIRF) اور فریڈم ہاؤس جیسے سرکردہ اداروں نے امریکی حکومت سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ وہ ہندوستان کو باعث تشویش ملک(CPC) قرار دے کیونکہ وہاں انسانی حقوق اور مذہبی آزادیوں کی مسلسل اور سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں، یہ مطالبہ کیپٹل بل پر امریکی کانگریس میں منعقدہ خصوصی بریفنگ کے دوران کیا گیا،جس میں 100 سے زائد کانگریسی عملہ شریک ہوا،اس موقع پر مقررین میں اقوام متحدہ کے اقلیتی امور کے خصوصی نمائندہ پروفیسر نکولس لیورات،اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے محافظین کے مشیر ایڈاو ڈونوان،یو ایس سی آئی آر ایف کے نائب صدر ڈاکٹر آصف محمود،فریڈم ہاؤس کی صدر اینی بویجیئن اور ہندو فار ہیومن رائٹس کی سینئر پالیسی ڈائریکٹر ریا چکرورتی شامل تھے۔پروفیسر لیورات نے کہا کہ اگرچہ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے لیکن حقیقت میں وہ جمہوری اقدار پر پورا نہیں اتررہا ہے،انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں اقلیتوں کو نہ صرف تحفظ حاصل نہیں بلکہ حکومت خود ایسے حالات پیدا کررہی ہے جو اقلیتوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ اقوام متحدہ کے تین نمائندوں نے 2024 میں ہندوستانی حکومت کو ایک مشترکہ خط روانہ کیا تھا جس میں وزیراعظم نریندر مودی کی انتخابی مہم میں نفرت انگیز تقاریر اور سرکاری اداروں کی چشم پوشی پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا تھا،تاہم حکومت ہند نے اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا،فریڈم ہاؤس کے صدر اینی بویجیئن نے کہا کہ گزشتہ 19 برسوں سے دنیا بھر میں آزادی میں کمی دیکھی جا رہی ہے اور ہندوستان اس میں سرفہرست ہے،انہوں نے کہا کہ ہندوستان نے 2014 کے بعد سے اب تک 15 پوائنٹس کھو دئے ہیں،جو آزادی پر سخت ضرب کی علامت ہے،تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پارلیمانی انتخابات کے دوران سیاسی اپوزیشن کو درپیش رکاوٹوں کے باعث ہندوستان کے اسکور میں مزید تین پوائنٹس کی کمی آئی ہے۔انکا کہنا تھا کہ ہندوستان واحد جمہوری ملک ہے جس کے خلاف فریڈم ہاؤس نے سرحد پار دباؤ کے 14 واقعات درج کیے ہیں جو 2014 کے بعد پیش آئے،انہوں نے ہندوستانی حکومت پر زور دیا کہ وہ تبدیلی مذہب سے متعلق قوانین کا جائزہ لے،مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کے لئے قانونی اور سماجی اقدامات کرے،پولیس کی جواب دہی بہتر بنائے اور مجرموں کے خلاف بلا تاخیر کاروائی کرے،انہوں نے امریکی حکومت سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ ہندوستان کو سی پی سی قرار دے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث افراد و اداروں پر پابندیاں عائد کرے۔ادھر اقوام متحدہ کے مشیر ایڈ او ڈونوان نے ہندوستان میں انسانی حقوق کے کارکنوں پر کئے جانے والے مظالم کو وحشیانہ ظلم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے انسداد دہشت گردی قوانین کا بے جا استعمال دراصل اختلاف رائے کو دبانے،وسائل کو روکنے اور کارکنوں کو دہشت گرد قرار دینے کے لئے کیا جا رہا ہے،جس سے دلت، آدیواسی،مسلم اور دیگر اقلیتوں کے کارکن سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں،انہوں نے کہا کہ ہندوستانی حکام نے قانون کے عمل کو سزا میں بدل دیا ہے یہ مطالبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے،جب ہندوستان میں اقلیتوں کے خلاف تشدد،نفرت انگیز تقاریر اور سیاسی مخالفین پر دباؤ میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے،عالمی اداروں کی بڑھتی تشویش ہندوستان کی بین الاقوامی ساکھ کے لئے ایک سنگین انتباہ تصور کی جا رہی ہے۔
اس رپورٹ میں کتنی سچائی ہے؟اس کو جاننے کے لیے آئیے دیکھتے ہیں دو تین دن پہلے کی ایک دوسری رپورٹ جسے ہیومن رائٹس واچ نے شائع کی ہے۔ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ ہندوستانی حکام نے حالیہ عرصے میں سینکڑوں بنگالی نژاد مسلمانوں کو ملک بدر کرتے ہوئے بنگلہ دیش بھیج دیا ہے اور بغیر کسی قانونی کاروائی کے انہیں غیرقانونی تارکین وطن قرار دیا ہے،حالانکہ ان میں سے بیشتر افراد بنگلہ دیش سے متصل ہندوستانی ریاستوں کے شہری ہیں۔ہیومن رائٹس واچ اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں نے انکشاف کیا ہے کہ مئی 2025 سے ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی بی جے پی کی زیر قیادت حکومت نے بنگالی مسلمانوں کو بنگلہ دیش واپس بھیجنے کی کاروائیاں تیز کر دی ہیں،تاکہ مبینہ طور پر غیر قانونی دراندازی کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔ہیومن رائٹس واچ نے زور دے کر کہا کہ یہ اقدامات قانونی تقاضوں کی خلاف ورزی اور امتیازی سلوک کے مترادف ہیں۔ہیومن رائٹس واچ کی ایشیا ڈائریکٹر ایلین پیرسن نے کہا کہ ہندوستان کی حکمراں جماعت بی جے پی، ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف امتیاز کو ہوا دے رہی ہے اور بنگالی مسلمانوں کو قانونی جواز کے بغیر بے دخل کررہی ہے،یہاں تک کہ ہندوستانی شہریوں کو بھی بے دخل کیا جا رہا ہے۔تنظیم نے جون میں 18 افراد کے انٹرویو کئے تھے جن میں متاثرہ افراد اور ان کے اہل خاندان شامل تھے ان میں ایسے شہری بھی تھے جو جلاوطنی کے بعد ہندوستان واپس آئے اور جن کے کچھ اہل خاندان آج بھی لاپتہ ہیں۔ہندوستانی وزارت داخلہ کو 8 جولائی کو ان نتائج سے آگاہ کیا گیا لیکن اب تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا،حکومت ہند نے بے دخل کئے گئے افراد کی سرکاری تعداد بھی نہیں بتائی لیکن بنگلہ دیش بارڈر گارڈ کے مطابق سات مئی سے 15 جون کے دوران ہندوستان نے 1500 سے زائد مسلم،مرد، خواتین اور بچوں کو زبردستی بنگلہ دیش کے اندر ڈھکیلا،جن میں تقریبا 100 روہنگیا پناہ گزیں بھی شامل ہیں۔آسام،اتر پردیش،دہلی،مہاراشٹر، گجرات،اڈیشہ اور راجستھان جیسی بی جے پی زیر قیادت ریاستوں میں بنگالی بولنے والے غریب مسلمان مزدوروں کو گرفتار کیا گیا اور بغیر شہریت کی تصدیق کئے سرحد پار بھیج دیا گیا۔کئی افراد کے فون،شناختی دستاویزات اور سامان وغیرہ ضبط کرلیا گیا اور ان سے رابطہ کا ہر ذریعہ چھین لیا گیا۔آسام کے سابق استاذ خیرالاسلام نے بتایا کہ 26 مئی کو ان کے ہاتھ باندھ کر منہ بند کر کے 14 افراد کے ساتھ زبردستی سرحد پار کرائی گئی،انہوں نے کہا کہ جب میں نے انکار کیا تو بی ایس ایف کے جوان نے مجھے مارا اور چار مرتبہ ہوا میں ربر کی گولیاں چلائی،مئی میں ہندوستان نے آسام کی جیل سے 100 روہنگیا پناہ گزینوں کو بھی بنگلہ دیش بھیجا۔اقوام متحدہ کے مطابق 40 روہنگیاؤں کو سمندر میں اتار دیا گیا اور انہیں تیر کر میانمار کے ساحل تک جانے پر مجبور کیا گیا اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے،جسے اقوام متحدہ کے نمائندہ نے انسانی شرافت کے خلاف “جرم” قرار دیا۔بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے 8 مئی کو ہندوستان کو ایک خط لکھا جس میں زبردستی ڈھکیلے جانے والے افراد کو ناقابل قبول قرار دیا اور کہا کہ صرف ان لوگوں کو قبول کیا جائے گا جو باضابطہ طور پر تصدیق شدہ بنگلہ دیشی شہری ہوں گے۔ہندوستان نے ان اقدامات کے ذریعے بین الاقوامی معاہدات کی سنگین خلاف ورزی کی ہے،ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ کسی بھی فرد کو بے دخل کرنے سے پہلے اسے مکمل معلومات فراہم کی جائیں،قانونی نمائندگی فراہم کی جائے اور فیصلہ کے خلاف اپیل کرنے کا انھیں حق بھی ملنا چاہیے،کیونکہ یہ انکا بنیادی اور جمہوری حق ہے۔
اوپر کی ان رپورٹوں کو پھر سے پڑھیے اور غور کیجئے کہ آخر اس ملک میں مسلمانوں کے ساتھ کیا کچھ ہورہا ہے اور یہاں کی اتھارٹیز،ادارے اور عدالتیں سب خاموش تماشائی ہیں آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ملک میں ہورہے مبینہ مظالم اور ہراسانی کے خلاف مختلف قومی کمیشنوں کی خاموشی پر چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی نے سوال تو اٹھایا ہے لیکن یہ ہرگز کافی نہیں ہے،منظم اور زوردار طریقے سے یہ آواز اٹھنی چاہئے،ممتا بنرجی نے کہا کہ اگر ایک چھپکلی بھی کسی کو کاٹتی ہے تو قومی کمیشن سرگرم ہو جاتے ہیں اور اپنے وفود کے ساتھ متحرک ہو جاتے ہیں لیکن مدھیہ پردیش،اتر پردیش، راجستھان، اڈیشہ، گجرات اور دہلی جیسی بی جے پی زیر حکمراں ریاستوں میں خواتین پر جنسی حملے حتی کہ انہیں زندہ نظر آتش کرنے پر بھی یہ قومی کمیشن خاموش رہتے ہیں ان کمیشنوں کے ارکان کبھی بھی بی جے پی زیر حکمران ریاستوں کا دورہ نہیں کرتے ایسا کیوں ہے اور ان کمیشنوں کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟
اقتدار کے نشے میں طاقت کے بل بوتے پر کہیں پولیس مسلم نوجوانوں اور اقلیتوں کا انکاؤنٹر کردیتی ہے، کبھی نفرت پسند تنظیموں سے وابستہ لوگ مسلم نوجوانوں کی ماب لنچنگ کردیتے ہیں، کہیں حکومت کی طرف سے اقلیتوں اور مسلمانوں کے خلاف گھروں پر بلڈوزر چلا دیا جاتا ہے کہیں حکومت کی جانب سے مسلمانوں کے شعائر اور شناخت پر حملہ کیا جا رہا ہے، لیکن ملک کا کوئی بھی ادارہ اس بارے میں سوال نہیں پوچھتا ہے اور نہ کوئی سنجیدگی دکھاتا ہے،سیاسی جماعتیں اور انکے لیڈران بھی مسلمانوں سے متعلق اس سنگین مسائل پر خاموش ہیں،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ان مسائل سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی وہ ان مسائل کو اٹھانے کے لئے تیار ہیں تو سوال یہ ہے کہ پھر ملک کے مسلمانوں کےلئے دوسرا کونسا راستہ بچا ہے؟
گزشتہ دنوں آسام میں برسوں پرانے مکانات سے جبری بے دخلی کے خلاف احتجاج کرنے والے مقامی رہائشیوں پر پولیس نے فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں دو مسلم نوجوان شاکر حسین اور قطب الدین شیخ جاں بحق ہو گئے،اس کاروائی کے دوران درجنوں افراد زخمی ہوئے، سینکڑوں گھروں کو پولیس نے طاقت کا بے جا استعمال کرتے ہوئے منہدم کردیا، کچھ دنوں پہلے گجرات سے بھی اسی طرح کی خبر آئی تھی کہ وہاں ہزاروں مسلمانوں کے مکانات پر بلڈوزر چلا کر لوگوں کو بے گھر کردیا،کسی ثبوت اور کسی عدالتی فیصلے کے بغیر ملک کی مختلف ریاستوں میں ہزاروں لوگوں کو اپنے گھروں سے محروم کر دیا گیا اور ان پر پولیس کی جانب سے تشدد بھی کیا گیا،لیکن اسطرح کی خبروں کو نہ ملک کا کارپوریٹ میڈیا جگہ دیتاہے اور نہ یہاں کی عدالتیں اسطرح کی غیرقانونی کاروائی سے حکومت کو روک رہی ہیں،
سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کو اپنے گھروں سے بے خبر اور بے دخل کیا جارہا ہے وہ لوگ کہاں جائیں اور کس کے رحم وکرم پر رہیں؟آخر حکومتیں اسطرح کے ڈکٹیٹر شپ پر کیوں آمادہ ہے جو اپنے ہی شہرویوں کے لیے عذاب بنتے جارہے ہیں اور اسکا حل کیاہے؟
مہاراشٹر کے اورنگ آباد کی تمام مساجد میں فجر کی اذان کے لئے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال بند کردیا گیا ہے،دہلی کے اشوک وہار میں ہزاروں غریبوں کے مکانوں پر بلڈوزر چلاکر اسے منہدم کردیا گیا،اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی متاثرین سے ملنے کے لیے گئے تو لوگوں نے انھیں اپنا درد سنایا،راہل گاندھی نے حکومت سے سوال کیا کہ غریبوں کے مکانوں پر بلڈوزر کاروائی آخر یہ ملک میں کیسا وکاس ہو رہا ہے؟ انہوں نے ایکس پرلکھا کہ اگر آپ کے اپنے ماں،باپ،بچے یا بھائی بہن کے سر سے اچانک چھت چھن لی جائے تو آپ کو کیسا لگے گا؟ دہلی کی جھگیوں میں رہنے والے سینکڑوں غریب خاندان آج اسی درد سے گزر رہے ہیں،راہل گاندھی کے مطابق یہ انہدامی کاروائی صرف گھروں کو گرانے تک محدود نہیں بلکہ غریبوں کے خواب، ان کی عزت نفس اور جینے کا سہارا بھی چھینا گیا ہے،انہوں نے بی جے پی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ کاروائی حکومت کی بے حسی،تانا شاہی اور طاقت کے نشے کی عکاسی کرتی ہے،ایک ویڈیو میں متاثرین اپنے ٹوٹے گھروں کے سامنے کھڑے ہو کر راہل گاندھی سے اپنی روداد سنا رہے ہیں،ایک خاتون نے کہا کہ ہمارے پاس کورٹ کا اسٹے آرڈر تھا، پھر بھی ہمارا گھر توڑ دیا گیا،ایک شخص نے کہا مودی جی نے کہا تھا جہاں جھگی وہیں مکان لیکن ہمیں تو کچھ نہیں ملا،لوگوں کا الزام ہے کہ بلڈوزر کارروائی سے پہلے نہ کوئی نوٹس دیا گیا اور نہ ہی متبادل رہائش کا بندوبست کیا گیا،بٹلہ ہاؤس کے جھونپڑ پٹی میں رہنے والے ایک شخص عبدل نے بتایا کہ میں 21 سال سے یہاں رہ رہا ہوں اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کچرا چنتا ہوں،اب ہمارا گھر تباہ کردیا گیا تو ہم کہاں جائیں گے،اس نے کانپتے ہوئے لہجے میں کہا کہ ہم غریب ضرور ہیں لیکن مجرم نہیں ہیں،ہمارے ساتھ اس طرح کا سلوک آخر کیوں کیا جا رہا ہے؟ایک بیوہ خاتون صابرہ نے اپنی جھونپڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا ہم اس ملک کے شہری نہیں ہیں،حکومت نے اس کو تباہ کر دیا تو اب ہم کہاں سڑک پر سوئیں گے؟متاثرین اور مقامی عوام کا کہنا ہے کہ ان کے پاس دستاویزات موجود ہیں جس سے اس علاقے میں ان کے طویل قیام کا ثبوت ملتا ہے،ان میں برقی بل،ووٹر آئی ڈی کارڈ اور راشن کارڈ شامل ہیں،ایک اور خاتون نے دعوی کیا کہ ہم غیر قانونی ہیں لیکن ہر الیکشن میں وہ ہمارے ووٹ لیتے ہیں،انہوں نے کہا کہ ہمیں برقی کنکشن حکومت کی جانب سے دیئے گیے ہیں،جب ہم نے چھت تعمیر کیا تو انہوں نے ہم سے رشوت وصول کی تھی،اب اچانک انہیں یاد آیا کہ ہم غیر قانونی ہیں،ان متاثرین کو راہل گاندھی نے ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کا تیقن دیا۔
یو پی کے ضلع امبیڈکر نگر کے جلال پور ٹاؤن میں مسلم برادری کی ایک قابل احترام شخصیت نبی احمد کے مکان کو بلڈوزر کے ذریعے آنا فانا تہس نہس کر دیا گیا یہ تین منزلہ مکان کئی برسوں کی سخت محنت،بچت اور خوابوں کے ساتھ تعمیر کیا گیا تھا جسے محض ایک گھنٹے کے اندر ملبے میں تبدیل کردیا گیا،اتر پردیش میں جاری بلڈوزر کاروائیوں کے سلسلے میں یہ ایک تازہ انہدامی کاروائی ہے،اس ریاست میں غیر قانونی تجاوزات کے نام پر سینکڑوں مسلمانوں کے گھروں اور دکانات کو منہدم کیا جا چکا ہے اور گزشتہ کئی سالوں سے یہ جاری ہے،نبی احمد نے جو اپنے گھر کے ملبہ کے قریب کھڑے ہوئے تھے،بتایا کہ میں نے اپنی ساری زندگی اس گھر کی تعمیر میں صرف کر دی،اب میرے پاس اپنے بیگ میں موجود کپڑوں کے علاوہ کچھ نہیں بچا انہوں نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا کہ اگر یہ انصاف ہے تو صرف ایک کھلی آنکھ سے کیا گیا انصاف ہے،یہاں کسی ہندو کے گھر کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا صرف ہمیں نشانہ بنایا جا رہا ہے،اس کاروائی پر مقامی عوام اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ کہانی کچھ اور ہے جو اس ریاست میں بڑھتے خوف اور مسلمانوں کے ساتھ امتیاز برتے جانے کو پیش کرتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ مرکز سے لیکر ریاستی حکومت تک سب مسلمانوں کے خلاف تعصب،نفرت،ناانصافی اور ظلم و جبر پر آمادہ ہے،مسلمانوں کی کہیں نہیں سنی جارہی ہے تو پھر ہمارے پاس آپشن کیا ہے؟اور ہمیں کیا کرنا چاہئے،غور کیجئے، شاید کوئی راستہ اور کوئی حل نکل سکے،بقول شاعر کہیں ہم اس مقام پر تو نہیں کھڑے ہیں کہ
قوت فکرو عمل پہلے فنا ہوجاتی ہے
پھر کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتاہے
*(مضمون نگار معروف صحافی اور کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)*
sarfarazahmedqasmi@gmail.com
نوٹ : مضمون نگار کے اپنے خیالات ہیں ، ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ ادارہ