دُرگاپور کے کوک اوون تھانہ علاقے میں گائے سے لدی ایک گاڑی کو روک کر اس میں سوار افراد کو زبردستی کان پکڑ کر گلیوں میں گھمانے، رسی سے باندھ کر پیٹنے، اور ان کی توہین کرنے کا سنگین واقعہ سامنے آیا ہے۔ سوشل میڈیا پر واقعے کی ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد پولیس نے دو افراد دیپک داس اور انیش بھٹّاچاریہ کو گرفتار کر لیا ہے۔
آسن سول-دُرگاپور پولیس کمشنر سنیل کمار چودھری نے جمعہ کی شب ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ ابتدائی جانچ سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ یہ کوئی گائے اسمگلنگ کا معاملہ نہیں تھا۔ ان کے مطابق، جن گایوں کو لے جایا جا رہا تھا، ان کی تمام دستاویزات درست اور قانونی تھیں۔ یہ گاڑی بانکوڑہ کے ایک ہاٹ (مویشی بازار) سے جیموعا جا رہی تھی۔
پولیس کمشنر نے مزید بتایا کہ گرفتار شدگان دیپک داس اور انیش بھٹّاچاریہ بی جے پی کے مقامی رہنما ہیں۔ اس واقعے میں بی جے پی یوا مورچہ کے اہم لیڈر پارجات گانگولی سمیت 15-20 دیگر افراد کی شناخت ہو چکی ہے۔ پولیس نے ان کے گھروں پر چھاپے مارے لیکن پارجات فرار ہو چکے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس قسم کی غنڈہ گردی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، اور تمام ملزمان کو جلد گرفتار کر کے قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی۔
یہ واقعہ جمعرات کو ڈی پی ایل ٹاؤن شپ علاقے میں پیش آیا، جب کچھ افراد نے گائے سے بھری گاڑی کو روک کر اس میں سوار دو افراد کو نشانہ بنایا۔ ان افراد کو رسیوں سے باندھ کر مارا پیٹا گیا، اور زبردستی کان پکڑوا کر گلیوں میں گھمایا گیا۔ ان الزامات کے تحت بی جے پی لیڈر پارجات گانگولی اور ان کے حامیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
ترنمول کانگریس کے مغربی بردوان ضلع صدر نریندر ناتھ چکرورتی نے اس واقعے کے خلاف تھانے میں تحریری شکایت درج کرائی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ غریب افراد ہاٹ سے گائے خرید کر واپس آ رہے تھے، جنہیں بی جے پی کارکنوں نے روکا، ان پر حملہ کیا، ان کے پیسے چھین لیے اور ان کے مذہب کی بنیاد پر انہیں نشانہ بنایا گیا۔
ادھر مغربی بنگال پولیس نے بھی اپنے سرکاری سوشل میڈیا پیج پر اس واقعے پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ پولیس نے لکھا:
“دُرگاپور میں کل ایک سیاسی جماعت کے کچھ غنڈوں نے اقلیتی طبقے کے دو افراد کو بلاوجہ پریشان کیا، ان پر حملہ کیا۔ اس سلسلے میں مقدمہ درج کر کے دو افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ باقی افراد کی تلاش جاری ہے۔ مغربی بنگال میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی روایت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی گئی ہے اور آئندہ بھی کی جائے گی۔ مذہبی انتہاپسندی کی بنیاد پر ہونے والی کسی بھی قسم کی تشدد کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔”
یہ واقعہ ایک بار پھر ثابت کرتا ہے کہ کس طرح سیاست کے نام پر غریب اور بے قصور افراد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ریاستی انتظامیہ پر ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف مجرموں کو سزا دے بلکہ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کو یقینی بنائے۔