Dastak Jo Pahunchey Har Ghar Tak

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on email

*سکھاۓکس نے اسماعیل کو آداب فرزندی*

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on email
ASANSOL DASTAK ONLINE DESK

ASANSOL DASTAK ONLINE DESK

*قمر اقبال مصباحی*
(آسنسول – بنگال)
موبائل نمبر:8318982436

روئے زمین پر بہت سے واقعات رونما ہوئے جن میں سے بعض واقعات مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ فراموش کر دیے گۓ مگر انھیں میں سے کچھ واقعات ایسے ہیں جو انسانی ذہن و فکر کے لیے موثر اور ناقابل فراموش ثابت ہوۓ۔ اس کی بہترین مثال وادی منی میں واقع ہونے والے باپ بیٹے کی وہ انوکھی داستان ہے جس کی قرآن مجید نے تیئیسویں پارے میں منظر نگاری کی ہے۔
ترجمہ: پھر جب وہ اس کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا کہا اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا کہ میں تجھے ذبح کرتا ہوں اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے کہا اے میرے باپ کیجئے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے(کنزالایمان)
لفظ ”قربانی“ اپنے دامن میں بڑا وسیع معنی رکھتا ہے قربانی کا شرعی مفہوم فقط اتنا ہے کہ”مخصوص جانوروں کو مخصوص دن میں بنیت تقرب ذبح کرنا قربانی ہے”قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جو اس امت کے لیے باقی رکھی گئی ہے اور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو قربانی کا حکم دیا گیا ارشاد باری تعالی ہے: فصل لربک وانحر ترجمہ: تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں گندمی رنگ کے دو مینڈھے ذبح کیے(صحیح بخاری شریف/جلد ۲)
حضرت سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ اور تمام احناف کے نزدیک قربانی واجب ہے۔ جس پر مذکورہ حدیث شاہد ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات مبارکہ پر نظر ڈالنے کے بعد  با آسانی یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اللہ رب العزت کی طرف سے آپ کو
بڑے بڑے امتحانات اور آزمائشوں سے گزرناپڑا، آزمائشیں ایسی کہ جہاں انسان تو انسان سخت پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہوجائیں، مگر ان تمام آزمائشوں کے باوجود حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صبر و تحمل کا دامن تھام کر راضی برضائے الہی ہونے کی روشن دلیل پیش کی تاریخ میں جس کی مثال کم یاب ہے۔
جب جب قربانی کے ایام قریب آتے ہیں تو وادی منی میں وقوع پذیر ہونے والی وہ کہانی ہمارے دل و دماغ کے دریچے پر دستک دیتی ہے۔
ابھی حضرت اسماعیل علیہ الصلاۃ والسلام 13 برس کے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: اے میرے بیٹے! میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں اور انبیاے کرام علیہم السلام کے خواب حق ہوتے ہیں اب تو دیکھ لے تیری کیا رائے ہے کسی شخص کے لیے اپنے نور نظر کو ذبح کرنا ایک غیر معمولی آزمائش ہے۔ مزید یہ کہ پیرانہ سالی تک حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کوئی اولاد نہ ہوئی آپ اولاد نرینہ کے لیے پروردگار عالم کی بارگاہ میں دعا مانگتے تھے”رب ھب لی من الصالحین” ترجمہ: اے میرے رب مجھے نیک اولاد عطا فرما ۔ اللہ تبارک و تعالی نے اپ کی دعا کو شرف اجابت بخشا۔ 86 سال کی عمر میں اللہ تعالی نے آپ کو اولاد سے نوازا جن کا نام حضرت اسماعیل رکھا گیا چنانچہ اس موقع پر ایک باپ کے دل میں بیٹے کے لیے محبتوں کا جہاں آباد ہوتا ہے پھر ایسی گھڑی میں اپنی محبوب ترین چیز کی قربانی دے کر امتحان عبور کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔

غریب و سادہ و رنگین ہے                داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتد ہے اسماعیل

خدا کی راہ میں قربانی کے پوچھنے پر حضرت اسماعیل علیہ السلام جواب میں جو کلمات ارشاد فرمائے وہ کلمات لاشعوری یا جذبات کی مغلوبیت کا نتیجہ نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے ذبح کا جواب ذبح میں نہ دیا بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر کہا: “قال یا بت افعل ماتؤمر” ترجمہ: آپ وہی کریں جس کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے۔ نیز یہ قاعدہ اہل علم سے پوشیدہ نہیں ہے کہ لفظ “ما” کلام عرب میں عموم کا افادہ کرتا ہے۔
اس جواب کے ذریعہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے نہ صرف اطاعت و فرماں برداری کی عظیم داستان رقم کی بلکہ پوری امت مسلمہ کو پیغام دیا کہ رب کے حکم پر انجام کی فکر کیے بغیر عمل پیرا ہوجانے میں ہی دارین کی نجات و فلاح ہے۔

شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال کی نگاہ جب اس واقعے پر گئی تو ان کی عقل حیران ہو گئی کہ ایک 13 سال کا نوخیز بچہ جسے خود اپنے متعلق کوئی فیصلہ لینے کے لیے دوسروں کی راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے، وہ رونگٹے کھڑے کر دینے والے اپنے والد کے اتنے عظیم فیصلے پر بلا چوں و چرا سر تسلیم خم کیسے کر سکتا ہے؟ جب کہ اس فیصلے کا انجام بھی ان کے سامنے تھا۔ اسی موقع پر ڈاکٹر اقبال نے اس منظر کا نقشہ یوں کھینچا ہے۔

یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی

پروردگار عالم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جذبۂ ایثار کو عام کرنے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اطاعت و فرماں برداری اور وفاداری کو عملی زندگی میں نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

یو ٹیوب پر آج دیکھیں ۔۔۔ اسپیشل