Dastak Jo Pahunchey Har Ghar Tak

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on email

* بنگلہ دیش کی پر تشدد حالات کی روداد*

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on email
ASANSOL DASTAK ONLINE DESK

ASANSOL DASTAK ONLINE DESK

Oplus_0
  • ہردن اشتعال بڑھتا جارہا ہے۔حالات کوقابو میں کرنے کےلئے بنگلہ دیش کی حکومت نے کرفیو لگا رکھا ہے ساتھ ہی ساتھ دیکھتے ہی گولی مارنے کی ہدایت بھی جاری کررکھی ہے۔ان حالات کومزید بگڑنے سے روکنے کے لئے موبائل اور انٹر نیٹ خدمات بھی بند کردی گئی ہے۔حالات بد سے بدتر ہورہے ہیں۔کھانے پینے کی اشیاء نہیں مل رہی ہیں۔

ان حالات میں وطن واپسی کےانتظار میں رات جاگ کر گذار رہے تھے۔منگل کے دن گلسی کےموسمی منڈل کی وطن واپسی ہوئی۔اس نے بتایا کہ وہ ساڑھے چار سال سے بنگلہ دیش میں تھی۔اس طرح کے حالات اس نے کبھی نہیں دیکھا۔انٹرنیٹ کی خدمات بند کردی گئی ہیں۔گھر کے لوگوں سے رابطہ نہیں قائم کرپارہی تھی۔سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ آخری دورات کیسے کاٹا ہے۔گلسی کے بروئی پور کی باشندہ موسمی کے والد ظہیر عباس منڈل ایک سیاسی ورکر ہیں اورماں جمیلہ بیگم لویا رام گوپالپور پنچایت کی پردھان ہیں۔قریب ساڑھے چار سال پہلے بنگلہ دیش کے کھلنا شہر کے ایک پرائیوٹ میڈیکل کالج میں موسمی ڈاکٹر کی پڑھائی کرنے گئی تھی۔سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہی چل رہا تھا کہ اچانک ریزرویشن کی مانگ پر اس ملک میں تحریک شروع ہوئی۔باربار ہونے والی احتجاج کی لہر سے دوسرے طلبہ کے ساتھ موسمی کے سر پر بھی آسمان ٹوٹ پڑا۔حالانکہ شروع میں کھلنا شہر میں تحریک کی آگ نہیں پہنچی۔مگر بعد میں اس شہرمیں بھی ہنگامہ شروع ہوگیا۔موسمی نے بتایا کہ گذشتہ 17 جولائی کو بنگلہ دیش کے تمام کالجوں میں تعلیم وتعلم کا عمل بند رکھنے کے ساتھ ہوسٹل میں رہنے والے طلبہ کو ہوسٹل چھوڑنے کی ہدایت جاری کردی گئی تھی۔اس کے بعد سے وہ پریشان ہوگئی۔سات دن ہوسٹل بند۔ہوسٹل کے تمام طلبہ کو شہر چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا تھا۔مگر واپسی کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی تھی۔آج صبح قریب 200 ہندوستانی طلبہ ایک بس کے ذریعہ روانہ ہوئے۔پیٹراپول سرحد کے راستے ملک میں واپس آئے۔موسمی نے یہ بھی بتایا کہ پہلےوہ اور اسکے ساتھی ہوٹل سے تیار کھانا کھارہے تھےمگر آخری دودن کرفیو لگ جانے کے بعد دوپہر کا کھانا تو مل جاتا تھامگر رات کا کھانانہیں۔کچھ سوکھے ہوئے کھانا بسکٹ وغیرہ تھا اسے ہی کھاکر رات گذاررہے تھے۔ہندوستانی سفارت خانہ کی مدد سے پیٹروپول سرحد کے راستے ملک واپسی ہوئی