Dastak Jo Pahunchey Har Ghar Tak

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on email

*ہماری قربانیاں روحانیت سے خالی کیوں ہورہی ہیں؟*

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on email
ASANSOL DASTAK ONLINE DESK

ASANSOL DASTAK ONLINE DESK

Oplus_16777216

*سرفرازاحمد قاسمی* حیدرآباد
رابطہ:  8099695186

                اسلام  کی آمد سے پہلے لوگ قربانی کر کے اس کا گوشت بیت اللہ کے سامنے لا کر رکھتے اور اس کا خون بیت اللہ کی دیواروں پر لٹھیر دیتے تھے،قران کریم نے بتایا کہ اللہ تعالی کو تمہارے اس گوشت اور خون کی ضرورت نہیں ہے،اس کے یہاں تو قربانی کے وہ جذبات پہنچتے ہیں جو ذبح کرتے وقت تمہارے دلوں میں موجزن  ہوتے ہیں یا ہردلوں میں ہونے چاہیے،یہ قربانی گوشت اور خون کا نام ہرگز نہیں ہے بلکہ اس حقیقت کا نام ہے کہ ہمارا سب کچھ خدا کے لئے ہے اور اسی کی راہ میں قربان ہونے کے لئے ہے،قربانی کرنے والا صرف جانور کے گلے پر ہی چھری نہیں پھیرتا بلکہ وہ ساری ناپسندیدہ خواہشات اور رسم و رواج کے گلے پر بھی چھری پھیر کر ان کو ذبح کرڈالتا ہے، اس شعور کے بغیر جو قربانی کی جاتی ہے وہ  حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کی سنت نہیں،بلکہ ایک قومی رسم ہے،جس میں گوشت اور پوست کی فراوانی تو ہوتی ہے لیکن وہ تقوی ناپید ہوتا ہے جو قربانی کی اصل روح ہے ارشاد خداوندی ہے اللہ تعالی کو ان جانوروں کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا بلکہ اس کو تمہاری جانب سے تمہارا تقوی پہنچتا ہے خدا کی نظر میں اس قربانی کی کوئی اہمیت نہیں جس کے پیچھے تقوی اور پرہیزگاری کے جذبات نہ ہوں،خدا کے دربار میں وہی عمل مقبول ہے جس کا محرک خدا کا تقوی ہو،جو انسان کو متقی بناتا ہو،فرمان الہی ہے اللہ تعالی صرف متقیوں کا عمل ہی قبول کرتا ہے۔
اللہ تعالی کے پاس ان قربانی کے جانوروں کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا بلکہ اس کے پاس تمہاری جانب سے تمہارے دل کا تقوی پہنچتا ہے قربانی کے سلسلے میں اس آیت کریمہ سے ایک بات یہ معلوم ہوئی  کہ اللہ رب العزت کے یہاں جو چیز مطلوب و مقصود ہے اور جس کی فی الواقع اس کے یہاں قدر ہے وہ قلب متقی اور پرہیزگار دل ہے نہ کہ کسی جانور کا خون بہا کر اس کا گوشت کھانا یا کھلانا،جانور کی قربانی دراصل قربانی دینے والے کی اندرونی حالت کا ایک خارجی اور جذباتی اظہار ہے کہ ہمیں کوئی تعصب، کوئی دلچسپی، کوئی ذاتی مفاد، کوئی دباؤ،کوئی لالچ، کوئی خوف اور نقصان غرض،  اندر کی کوئی کمزوری اور باہر کی طاقت اللہ کے راستے اور تقوی و پرہیزگاری کے کام سے ہٹا نہیں سکتی،اس طرح کہ کوئی صورت پیش آجائے تو ہم مالک حقیقی کے نام پر برضا و رغبت اپنی جان تک قربان کرنے کے لئے آمادہ و تیار ہیں،مگر اس کے راستے اور نیکی و تقوی کے کاموں سے نہ رخ موڑ سکتے ہیں نہ اسے چھوڑ سکتے ہیں گویا دوسرے لفظوں میں سر کٹا سکتے ہیں لیکن سر جھکا سکتے نہیں،جانور کی قربانی دینے والے کے اندر اگر یہ جذبات نہ ہوں تو اس کا یہ عمل خارجی عمل اور ایک ایسا سائن بورڈ ہے جس کے پیچھے کوئی دکان موجود نہ ہو اور جو فرضی طور پر کسی دیوار سے لٹکا دیا گیا ہو۔
قرآن کریم اور تورات دونوں ہی سے یہ بات ثابت ہے کہ ملت ابراہیمی کی بنیاد قربانی تھی اور یہی قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیغمبرانہ اور روحانی زندگی کی اصل خصوصیت تھی اور اسی امتحان اور آزمائش میں پورا اترنے کی وجہ سے ان کی اولاد ہر قسم کی نعمتوں اور برکتوں سے مالا مال کی گئی تورات کی کتاب پیدائش میں ہے”خدا وندا فرماتا ہے اس لئے کہ تو نے ایسا کام کیا اپنا بیٹا،ہاں اپنا اکلوتا بیٹا دریغ نہ رکھا،میں نے اپنی قسم کھائی کہ میں برکت دیتے ہی تجھے برکت دوں گا اور بڑھاتے ہی تیری نسل کو آسمان کے ستاروں اور دریا کے کنارے کی ریت کے مانند بڑھاؤں گا اور تیری نسل اپنے دشمنوں کے دروازوں پر قابض ہو جائے گی اور تیری نسل سے زمین کی ساری قوم برکت پائے گی کیونکہ تو نے میری بات مانی اور مجھے خوش کیا ”
حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل ان دونوں باپ بیٹے کی قربانی کیا تھی یہ محض خون اور گوشت کی قربانی ہرگز نہ تھی بلکہ یہ روح اور دل کی قربانی تھی،یہ ماسوا اللہ اور غیر کی محبت کی قربانی خدا کی راہ میں تھی یا اپنے عزیز ترین متاع کو خدا کے سامنے پیش کر دینے کی نذرتھی،یہ خدا کی اطاعت، عبودیت اور کامل بندگی کا بے مثال منظر تھا یہ تسلیم و رضا اور صبر و شکر کا وہ امتحان تھا جس کو پورا کئے بغیر دنیا کی پیشوائی اور آخرت کی نیکی مل ہی نہیں سکتی،یہ باپ کا اپنے اکلوتے بیٹے کے خون سے زمین کو رنگین کر دینا نہ تھا بلکہ خدا کے سامنے اپنے تمام جذبات،خواہشات، تمناؤں اور آرزوؤں کی قربانی تھی یہ حکم خداوندی کے سامنے اپنے ہر قسم کے ارادے و مرضی کو معدوم کر دینا تھا اور جانور کی یہ ظاہری قربانی اس اندورنی نقش کا ظاہری عکس اور اس خورشید حقیقت کا ظل مجاز بھی تھا،اسلام کے لفظی معنی اپنے کو کسی دوسرے کے سپرد کر دینا اور اطاعت و بندگی کے لئے گردن جھکا دینا ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جو حضرت ابراہیم و اسماعیل کے اس ایثار اور قربانی سے ظاہر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان باپ بیٹوں کی اس اطاعت اور فرمانبرداری کے جذبے کو صفحہ محمدی میں اسلام کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ملت ابراہیمی کی حقیقت، یہی اسلام ہے کہ انہوں نے خود کو خدا کے ہاتھ میں سونپ دیا اور اس کے آستانے پر اپنا سر جھکا دیا یہ اسلام کی حقیقت ہے اور یہی ملت ابراہیمی کا خلاصہ بھی ہے اور اسی بار امانت کو اٹھانے کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام بار بار اپنے پروردگار سے دعا مانگتے تھے کہ ان کی نسل میں اس بوجھ کے اٹھانے والے ہر زمانے میں موجود رہیں اور بالآخر ان کی نسل میں وہ امین پیدا ہو جو اس امانت کو لے کر تمام دنیا میں اسے وقف عام کردے۔
یہ قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی انہی قربانیوں کا نتیجہ ہے جو اس وقت سے لے کر آج تک امت مسلمہ کا شعار رہا ہے،صحابہ کرام نے اسی قربانی کے متعلق حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم کیا تھا کہ  اے اللہ کے رسول یہ جو ہم قربانی کرتے ہیں جانوروں کا خون بہاتے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تمہارے بزرگ باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے،صحابہ نے پھر پوچھا،اے اللہ کے نبی ہمیں اس میں کیا ملے گا؟ آپ نے ارشادفرمایا” جانور کے ہر بال کے بدلے تمہیں ایک نیکی ملے گی”۔روایتوں میں آتا ہے کہ عید الاضحی اور قربانی کے دن’ ابن آدم  کا کوئی عمل خدا کے یہاں قربانی سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ نہیں ہے،یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ قربانی فرماتے رہے اور پوری امت کو یہ حکم دیا  کہ اگر ان کے پاس وسعت ہو،مال کی فراوانی ہو تو وہ ضرور قربانی کیا کریں اپنی طرف سے بھی کریں، اپنے اہل و عیال کی طرف سے بھی کریں،خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر قربانی کا جانور ذبح کرنے کے بعد یہ دعا مانگی  کہ اے اللہ یہ قربانی میری طرف سے بھی ہے اور میری امت کے غریبوں کی طرف سے بھی ہے،میری امت کے فقراء اور محتاجوں کی طرف سے بھی ہے،اے اللہ میرے اس قربانی کو میری امت کے ناداروں اور مفلسوں کی طرف سے بھی قبول فرما اور ان لوگوں کو بھی اس کا ثواب دے جو قربانی کرنے کی طاقت نہیں رکھتے،جن کے پاس اتنا پیسہ اور سرمایہ نہیں ہے کہ وہ تیری راہ میں جانور کا خون بہائیں۔ اس لیے ہمیں چاہئے کہ ہم بھی قربانی کریں اور شوق سے کریں،پورے اخلاص و للہیت کے ساتھ کریں اور قربانی کی اس آیت پر یقین رکھیں کہ اللہ تعالی کے دربار میں ہماری قربانیوں کا گوشت ہرگز نہیں پہنچتا قربانی کا خون اللہ کے یہاں نہیں جاتا،اللہ تعالی تو ہمارے تقوی کو دیکھتے ہیں،ہمارے اخلاص اور ہمارے دل کو دیکھتے ہیں،اللہ کی بارگاہ میں ہماری نیت دیکھی جاتی ہے،ہمارا ارادہ دیکھا جاتاہے،اسکے علاوہ وہاں اور کوئی چیز نہیں دیکھی جاتی۔
حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ آج مسلمانوں کو تین طرح کی قربانیاں دینے کی ضرورت ہے،ہماری ہرقربانی کے لئے ہماری تاریخ میں ایک امام موجود ہے،ایک قربانی وہ ہے جو سیدنا خالد ابن ولید رضی اللہ عنہ نے جنگ یرموک میں دی تھی،دوسری قربانی وہ ہے جو حضرت حسن ابن علی نے حضرت معاویہ کے مقابلے میں امت کے انتشار کو ختم کرنے کےلئے دی تھی اور تیسری قربانی وہ ہے جو حضرت عمر ابن عبدالعزیز رضی اللہ نے اسلامی مملکت،معاشرے کو اسلامی زندگی اور اسلامی سیرت کی راہ پر لگانے کے لئے اپنی زندگی کو بدل کر اور اپنے خاندان کے مفاد سے آنکھیں بند کر کے دی تھی،اب یہ تینوں قربانیاں اسوقت ملت اسلامیہ ہندیہ کو درپیش ہیں، صحابی رسول حضرت خالد ابن ولید کی قربانی یہ پیغام دیتی ہے کہ عین میدان جنگ میں اگرمعذول کردیا جائے تو پیشانی پر کوئی شکن نہ آئے اور یہ الفاظ تاریخ کے ریکارڈ نے اسی وقت محفوظ کر لئے کہ اگر میں خلیفہ عمر کے لئے لڑرہا تھا تو اب نہیں لڑوں گا اور اگر اللہ تعالی کے لئے لڑتا تھا تو میرے جوش و سرگرمی میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ پھر دنیا نے دیکھ لیا کہ اللہ کےاس سچے بندے نے جنکی پرورش اور تربیت نبوت کے سائے میں ہوئی تھی،اپنے  اس قول کو اسطرح سچا کر دکھایا کہ انکے جوش و جہاد اور شوق شہادت میں کوئی فرق نہیں آیا،دنیا کی تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے کہ جس شخص کا نام فتح کے ساتھ اس طرح گھل مل گیا تھا کہ ان میں فرق کرنا مشکل تھا،وہ نام فتح کی علامت و اثر بن گیا تھا،لوگ پہلے یہی پوچھتے تھے کہ اس معرکے میں خالد ابن ولید ہیں یا نہیں؟ اگر جواب ملتا کہ وہ ہیں تو دل امیدوں سے بھر جاتے تھے،اصل بھروسہ خدا پر تھا لیکن ان کی موجودگی کو فال نیک سمجھتے تھے دنیا کی تاریخ اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتی، فاروق اعظم کی عظمت کے سامنے خدا اعتمادی اور خود اعتمادی کے جوہر کے سامنے مؤرخ حیران ہو کے کھڑا ہو جاتا ہے کہ اس خدا کے بندے نے اس ملت کے لیے اور قیامت تک کے لیے ایک مثال قائم کرنے کے لیے یہ قدم اٹھایا،اتنا خطرناک قدم کہ میں سمجھتا ہوں کہ جنگوں کی تاریخ میں اتنا خطرناک قدم آج تک نہیں اٹھایا گیا اور اتنا بڑا خطرہ (رسک) کبھی مول نہیں لیا گیا کہ عین اس وقت جب سب سے بڑا فیصلہ کن معرکہ یرموک کی جنگ درپیش تھا مدینہ سے ایک شخص آتا ہے اور حضرت خالد کی معزولی اور حضرت ابو عبیدہ کے تقرر کا پروانہ ہاتھ میں دیتا ہے اور لوگوں کو معلوم ہو جاتا ہے کہ خالد ابن ولید اب کمانڈر ان چیف یا قائد افواج اسلامی نہیں رہے انہوں نے سر جھکا دیا اور سب سپاہیوں نے دیکھا کہ خالد معزول کردیے گئے اور خالد نے اس وقت کہا کہ اگر جہاد سے میرا مقصد عمر ابن الخطاب کی خوشنودی ہوتی تو میں آئندہ جہاد سے رک جاتا لیکن میں چونکہ اللہ کے راستے میں اس کی رضا جوئی کے لیے اور اللہ تعالی سے ثواب کی امید میں جہاد کرتا تھا اس لئے میرے زور بازو میں کوئی فتور اور قتال کے لیے میرے جوش و سرگرمی میں کوئی کمی نہیں آئے گی”(دعوت فروعمل)
عید الاضحی یا بقرہ عید کو پوری دنیا کے مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد میں بڑی محبت کے ساتھ مناتے ہیں اور ان کے پرعز م واقعات بڑی فصاحت و بلاغت سے بیان کیا کرتے ہیں،ان واقعات میں عبرت و نصیحت اور غور و فکر کا بڑا سامان ہمارے لئے موجود ہے،دنیا میں انسان بڑا بننے کے لئے بعض اوقات الٹے سیدھے داؤ پیچ بھی چلتا ہے،سفارش سے نکموں کو بڑے بڑے عہدے مل جاتے ہیں نقل اور پیسے سے جاہلوں کو اعلی ڈگریاں مل جاتی ہیں،دھاندلی اور فراڈ سے قانون ساز اداروں تک کی رکنیت حاصل ہوجاتی ہے مگر یاد رکھیئے کہ اللہ تعالی کے نزدیک بڑا بننے اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے ان میں سے کوئی حربہ بھی کام نہیں آتا،وہ جسے اپنا مقرب اور محبوب بناتا ہے،اسے سخت آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے، اسلامی روایات بتلاتی ہیں کہ جو اللہ تعالی کا جتنا پیارا اور محبوب ہوتا ہے اس کا امتحان اتنا ہی سخت ہوتا ہے،اللہ تعالی کے ہاں صرف زبانی دعوے نہیں چلتے بلکہ ٹھوک بجا کر دیکھا جاتا ہے،معیار پر جانچا جاتا ہے، بار بار آزمایا جاتا ہے،پرکھا جاتا ہے کہ یہ اپنے دعوے میں سچا ہے یا ایسے ہی زبانی کلامی تاج محل تعمیر کر رہا ہے،اللہ تعالی قران کریم میں ارشاد فرماتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ” کیا  لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ چھوڑ دیے جائیں گے صرف یہ کہہ کر کہ ہم ایمان لائے اور ان کو جانچا نہیں جائے گا” یہ سلسلہ آج سے نہیں بلکہ ہر دور میں یہ دستور رہا ہے کہ جس کسی نے بھی اللہ تعالی کی محبت کا اور مخلص ہونے کا دعوی کیا ہے اسے آزمائشوں کی بھٹی سے ضرور گزرنا پڑا ہے اور یہی کام حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی اللہ نے لیا،اپنے دیگر نیک اور مقرب بندوں سے وہ لیتا رہا ہے یہی اس دنیا کا دستور ہے،قدرت کا نظام ہے،
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تو اللہ تعالی کی رضا پر سب کچھ قربان کر دیا تھا باپ کی محبت،قوم کا تعلق،وطن کا ساتھ، بیوی بچے، لیکن کیا ہم بھی اللہ تعالی کی رضا اوراسکے حصول کے لیے جذبات و احساسات، ذاتی مفادات اور دنیاوی رشتوں کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں یا دے سکتے ہیں؟ صرف بکرے اور گائے کو ذبح کر لینے کرنے کو قربانی مت سمجھیے ہم سے تو قدم قدم پر اسلام قربانی کا مطالبہ کرتا ہے،ہمارا مذہب یہ قربانی کا مذہب ہے،یہ ہر قدم پر،ہر موڑ پر قربانی چاہتا ہے، میٹھی نیند کا غلبہ ہو اور اذان ہو جائے تو نیند کی قربانی کا مطالبہ،حلال و حرام کی کشمکش ہو تو مال کی قربانی کا مطالبہ،رسم و رواج اور سنتوں کا ٹکراؤ ہو تو دنیاوی تعلقات کی قربانی کا مطالبہ،میدان جہاد سے پکارا جائے تو مال و جان اور اولاد کی قربانی کا مطالبہ،مگر حقیقت یہ ہے کہ آج ہم طوعاوکرہا یہ  قربانی ہرسال تو کر لیتے ہیں مگر کیا قربانی کا حقیقی جذبہ ہمارے اندر موجود ہے؟ حالانکہ مسلمان ہونے کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ وہ ہر طرح کی قربانی کے لیے ہمیشہ تیار رہے لیکن کیا ہم  ہر طرح کی قربانی کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں؟قربانی کو ایک رسمی قربانی کے بہ جائے ایک روحانی قربانی میں تبدیل کرنے کے لئے سنجیدہ ہیں؟آخر ہماری قربانیاں ہرسال روحانیت اور مقصدیت سے خالی کیوں ہوتی ہیں؟ کیا ہم قربانی کے مقصد کو پورا کررہے ہیں یا ایک رسم اداکررہے ہیں؟ ذرا ٹہر کر ہمیں ضرور سوچنا ہوگا۔
آج بھی ہو جو ابرا ہیم سا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا
*(مضمون نگار معروف صحافی اور کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)*